Muhammad Irfan
سُنو تُم لوٹ آؤ نا،

بہت دِن سے
تمہیں دیکھا نہی،
صرف سوچا ہے۔
تمہیں ڈھونڈا ہے،
دن میں، رات میں،
صبح میں، شام میں،
گُزرتے وقت کے اِک اِک لمحے میں،
تمہیں کُھوجا ہے۔

وہ دو چار دن کی،
دوستی، یا دل لگی،
یا بیکار لمحوں کی عنایت تھی،
مگر ہم نے اُسے اپنی،
تمام عُمر سے ذیادہ،
سنبھال رکھا ہے،

تو پھر یہ سب تمھاری ہی امانت ہے،
اِس میں کُچھ خوشیاں،
جو تمھارے ساتھ ہونے سے،
یا تم سے بات ہونے سے،
یا پھر دیدار ہونے سے،
اور پھر تُم سے پیار ہونے سے،
اور کُچھ درد بھی ہیں،
جو تمھارے اُداس ہونے سے،
تیرے رونے سے، تیرے ناراض ہونے سے،
سبھی سنبھال رکھے ہیں،
اور تم ہی کو لوٹانا ہے،
سُنو تم لوٹ آؤ نا۔
0 Responses

Post a Comment